متفرق

خوبصورت لڑکی اور چُڑیل

تحریر: سارہ مقبول

پُرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک گاؤں تھا جس کا نام خوشحال پور تھا۔ اس گاؤں کا نام خوشحال پور اس لئے رکھا گیا کیونکہ اس گاؤں میں رہنے والے سب لوگ ہمیشہ خوش رہتے تھے ۔ اور ان پر کبھی کوئی آفت نہیں آئی تھی ۔اس گاؤں کےمنشی راجو کی ایک بیٹی تھی جو کہ بہت خوبصورت تھی جس کا نام ستارا تھا۔ ایک دن ستارہ اپنی سہیلیوں رامو اور چندا کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل میں مگن تھی۔ تو ادھر سے ایک بوڑھی عورت آ گزری وہ بوڑھی عورت دراصل  ایک چُڑیل تھی۔ اس نے بچوں کے پاس جا کر کہا کہ میں بہت دور سے آئی ہوں اور صبح سے میں نے کچھ نہیں کھایا  ہے اور نہ کچھ پیا ہے۔ خدا تمہیں سلامت رکھے کیا تم لوگ مجھے ایک گلاس پانی پلا سکتے ہو۔ رامو اور چندا نے کہا کہ تم اس بوڑھی عورت کا خیال رکھو۔ اور ہم اس وگ مجھے ایک گلاس پانی پلا سکتے ہو۔ رامو اور چندا نے کہا کہ تم اس بوکے لئےکھانے پینے کا بندوبست کرکے آتے ہیں۔اس طرح وہ دونوں کھانا لینے چلی گئیں۔ستارا نے اس بوڑھی عورت سے پوچھا کہ  آپ کہا ں سے آئی ہیں ؟۔اس بوڑھی عورت نے کہا کہ بیٹی میں جہاں سے بھی آئی ہوں اب تمہیں بھی اپنے ساتھ وہاں لے جاؤں گی یہ کہ کر اس چڑیل نے  ستارا پر کوئی منتر پڑھ کر پھونکا جس سے ستا را بے ہوش ہوگئی اور وہ ستا را کو لے کر وہاں سے چلی گئی۔ جب رامو اور چندا کھانا لیکر واپس آئیں تو دیکھا کہ ستارا اور بوڑھی عورت وہاں پر موجود نہیں ہیں اور ستارا کی کھلونا گاڑی وہاں پر گری ہوئی ہے۔ تو وہ دونوں پریشان ہوگئیں اور ستارا کی کھلونا گاڑی وہاں سے اُٹھا کر اُس کے باپ منشی راجو اور اُس کی امی کے پاس گئے اور سارا واقعہ بتایا۔ ستارا کی امی یہ بات سن کر  رونے لگی تو منشی راجو نے اُسے دلاسہ دیا کہ ستارا کو میں ڈھونڈ کر لاؤں گا ۔ ادھر وہ چڑیل ستارا کو لے کر جنگل میں پہنچی ۔ وہاں اُس نے ستارا کو ایک کمرے میں بند کردیا۔ کچھ دیر کے بعد جب ستارا کو ہوش آیا۔ تو وہ بہت ڈر گئی اور رونے لگی۔ روتے روتے اسے ایک بات یاد آئی کہ اس کے مرحوم دادا  نے اسے ایک نصیحت کی تھی کہ بیٹا کتنی بڑی ہی مشکل آجائے لیکن ہمت نہیں ہارنی چاہئے اور خدا پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ اپنے دادا کی نصیحت یاد کرکے ستارا جھٹ سے کھڑی ہوئی۔ اور کہا کہ میں ایک اللہ کی عبادت کرتی ہوں اور اس سے ڈرتی ہوں میں اس بُری چڑیل سے نہیں ڈرتی مجھے یقین ہے کہ میرا اللہ میری مدد ضرور فرمائے گا ۔ ادھر منشی راجو گاؤں کے دوسرے آدمیوں اور پولیس کو لے کر ستارا کو ڈھونڈنے لگا اس نے پولیس کو کہا کہ وہ جلد از جلد اس کی گمشدہ بیٹی  ستارا کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔ اور پھر چڑیل ستارا کے پاس آئی اور بولی کہ بہت دن ہو گئے تھے کہ میں نے کسی انسانی بچے کا گوشت نہیں کھایا تھا۔ اب میں تمہیں کھاؤں گی ۔ یہ کہ کر وہ زور سے قہقہ لگا کر ہنسنے لگی ہا ہا ہا ہا ہا  ہا ہا ۔۔۔جب اس چڑیل نے اپنا رُخ دروازے کی طرف کیا تو ستا را نے جھٹ سے لوہے کی سلاخ اُٹھا کر اس چڑیل کے سر میں دے ماری ۔جس کی وجہ سے چڑیل بے ہوش ہوگئی اور ستارا وہاں سے بھاگ گئی۔ ادھر سے منشی راجو جنگل کے قریب پہنچ گیا۔ تو اس نے سامنے سے ستارا کو اپنی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا ۔ یہ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔ستارا اپنے باپ کی طرف بھاگ کر آئی اور اپنے باپ کو گلے لگا لیا ۔ اس کے بعد اس نے پولیس کو چڑیل کے بارے میں بتایا۔ پولیس والوں نے اس چڑیل کو پکڑ لیا اور اسے آگ میں جلا دیا۔ جلتے ہوئے اس چڑیل نے بہت معافی مانگی لیکن گاؤں والوں اور منشی راجو نے اسے معاف نہ کیا۔ کیونکہ اُنہیں ڈر تھا کہ جو واقع ستارا کے ساتھ پیش آیا ہے۔ یہ گاؤں کے دوسرے بچوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ چڑیل کے ختم ہونے کے بعد ستارا نے  چ نہ کیا۔ کیونکہ ااس نے پولیس کو چس نے سامنے سے ستارا کو اپنی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا ۔ یہ دیکھ کر وہ بہتگاؤں والوں کو سارا  واقعہ سنایا۔ گاؤں والوں نے ستارا کی بہادری کو داد دی اورستارا نے اپنے گاؤں والوں کو بتایا کہ ہمیں ہمیشہ اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ چاہے زندگی میں بڑی سے بڑی مشکل ہی کیوں نہ آجائے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد ضرور کرتا ہے۔

ا یڈیٹر نوٹ: یہ تحریر جماعت دہم کے طالب علم سارہ مقبول  نے بھیجی ہے۔ ہم نے املا، گرائمر، اور تحریری قواعد و ضوابط کی پابندی کو بہتر بنانے کے لیے کچھ ترامیم کی ہیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button