متفرقنوجوان مصنفین کلب

زندگی میں پہلی دفعہ ایمبولینس کا سفر

تحریر: صبا نعیم

بروز بدھ 8 نومبر کی بات ہے اس دن میری کلاس کے لڑکے پرفیوم لگاکرآئے تھے۔ اور انہوں نے اس عمل کو اپنا معمول بنایا ہوا تھا کیونکہ اُن کو پتہ تھا کہ لڑکیوں کو اس چیز سے بڑی جلن تھی ۔ لڑکیوں کی طبیعت خرا ب ہوجاتی تھی مگر لڑکے پھر بھی معمول کے مطابق آج بھی اس طرح پرفیوم لگا کر آئے تھے۔ جب وہ کلاس میں داخل ہوئے تو بہت ہی عجیب قسم کی خوشبو آنے لگی۔ اور میرا سر درد کرنے لگا یوں حد سے زیادہ میر ی طبیعت خراب ہوتی گئی۔ پھر میں نے اپنی کیمسٹری کی ٹیچر سے کہا کہ میں تھوڑی دیر کے لئے باہر چلی جاؤں؟ تو ٹیچر نے کہا کوئی بات نہیں چلی جاؤ۔ تو میں کلاس سے باہر چلی گئی ۔ میں جیسے ہی باہر جانے لگی میرا پاؤں ڈیسک میں اُلجھا اور میں نیچے گِر گئی۔ اور اس وقت کلاس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی موجود تھے میں گِر کر اُٹھی اور کلاس سے باہر چلی گئی۔ میں نے سوچا کہ میں کلاس میں سب کے سامنے گِر گئی ہوں۔ پھر اس کے بعد میری حالت مزید بگڑ گئی اور میرا پورا جسم برف کی مانند ٹھنڈا پڑ گیا۔ میرے ہاتھ بالکل سن ہو گئے اور مجھے سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی تھی۔ پھر میری سب سہیلیاں آگئیں اور مجھے لے کر اوپر والے پورشن میں چلی گئیں۔ وہاں انہوں نے میرے ہاتھ پاؤں گرم کرنے کی کوشش کی مگر کچھ فرق نہ پڑا۔ اور میری حالت اور زیادہ بگڑتی گئی اور میں بیہوش ہو گئی۔ ٹیچرز سمیت طلباء و طالبات پریشان ہوگئے کہ بچی کو کیا ہو گیا ہے۔ میری سہیلیاں اور باقی لڑکیاں رپیشانی سے رونے لگی۔ سوائے حفصہ کے وہ میری پاس بیٹھی رہی اور مجھے ہمت دینے کی کوشش کرتی رہی۔ میرے بابا بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے ایمبولینس آرہی ہے کہ نہیں یا میں اپنی بیٹی کو خود ہسپتال لے جاؤں؟ میری ٹیچر نے بتایا کہ انہوں نے ریسکیو 1122 پر کال کی ہے۔ پھر چند منٹوں میں ریسکیوں 1122 کی ایمبولینس آگئی اور ریسکیو والوں نے چیک کیا تو انہوں نے کہا کہ بچی کو ہسپتال لے کر جانا پڑے گا۔ اور اُس وقت مجھے کوئی ہوش نہیں تھا یہ ساری باتیں مجھے میری ھم جماعت حفصہ نے ہی بتائیں تھیں۔ میں جب ہسپتال گئی تو انہوں نےمجھے ڈرِپ لگائی پھر مجھے ہوش آیا۔ ڈرِپ لگانے کے بعد نرس نے ٹیکہ بھی لگایا جس سے مجھے بہت درد ہوا۔ اتنے میں بابا آئے تو انہوں نے کہا کہ صبا بیٹا کیا ہوا ہے تو میری حالت اور بگڑ گئی بابا کی آواز سن کر۔ مجھے تقریبا چار سے پانچ گھنٹے ہسپتال میں رکھا گیا۔ میری حالت کچھ بہتر ہو گئی۔اور بے حوشی کی حالت میں میرے شوز بھی اکیڈمی میں ہی رہ گئے ہیں۔ پھر میرے شوز میرا کزن لے آیا اور مجھے پھر گھر لے جایا گیا۔ گھر پر صرف میری ماں اور میری بہن کو پتہ تھا۔ کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ جب میں گھر پہنچی تو میری ماں بہت پریشان تھی اور مجھ سے پوچھا کہ بیٹا کیا ہوگیا تھا؟ اب کیسی ہو اور کیونکہ وہ میری حالت کا سن کربہت پریشان تھی۔ ان حالات میں میرے اُستا د بھی بہت پریشان رہے اور انہوں نے میری بہت کیئر کی۔ جب میں گھر پہنچی تو میرے ٹیچر اورھم جماعت طالبات کی کالز آئی تھیں ان سب نے میرے لئے دعائیں کیں اور میری خیریت دریافت کی۔ ان سب کی دعاؤں سے میں بہتر ہو گئی تھی۔ پھر 9 نومبر-اقبال ڈے کی تو چھٹی تھی جب میں اگلے دن گئی توسب نے میرا مذاق اُڑایا اور میرے لئے پریشانی کا اظہار بھی کیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ یہ واقعہ مجھے ساری زندگی یاد رہے گا۔ اب تو میں یہی کہوں گی کہ اللہ پاک سب کو ایسے واقعات سے محفوظ رکھے اور گِرنے سے بھی بچائے۔ (آمین)


ایڈیٹر نوٹ: یہ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول آدم واہن لودھراں سے صبا نعیم نے بھیجی ہے۔ ہم نے املا، گرائمر، اور تحریری قواعد و ضوابط کی پابندی کو بہتر بنانے کے لیے کچھ ترامیم کرنے بعد شائع کی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button