بلاگ

پیسوں سے بھرا بیگ

تحریر: سونیا فرید

 

جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے تب سےاس معاشرے میں  امیری اور غریبی کا فرق دیکھ رہی ہوں امیرلوگ غریبوں کو اپنے آپ سے کم تر سمجھتے ہیں ۔  خاص کر پیسے اور رتبے کے لحاظ سے تو بہت زیادہ کم تر سمجھتے ہیں ۔ فرض کیا اگر مجھے کبھی کوئی پیسوں سے بھرا بیگ ملا تو سب سے پہلے میں ان غریب لوگوں کی مدد کروں گی جو پڑھنا چاہتے ہیں مگر پیسوں کی کمی کی وجہ سے پڑھ نہیں سکتے ۔

میں نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو پیسوں کی کمی کی وجہ سے اپنے پڑھائی کے شوق کو ترک کر دیتے ہیں ۔اس لئے مجھے جب بھی کوئی پیسوں کا بیگ ملایا میں اس قابل ہوئی کہ کسی کی مدد کر سکوں تو پہلے نمبر پر پھر دوسرے نمبر پر  بھی ان لوگوں کی مدد کرنا چاہوں گی۔ جو  بے روزگار ہوں گے جن کے پاس اپنا کوئی رووزگارنہیں ہو گا۔ ان لوگوں کو اپنی غریبی اور بے روزگاری کی وجہ سے اپنے خوابوں اور اپنی خواہشات  کو صرف اپنے دل میں رکھنا پڑتا ہے۔ میں بے روزگاروں کے لئے روزگار بنانے اور کوئی چھوٹی سی دکان کھولنے میں مدد کروں گی تاکہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کا خیال رکھ سکیں اور ان کو دو وقت کا کھانا کھلا سکیں۔ یہ  دو کام کرنے کے بعد اگر رقم بچ گئی تو وہ بچی ہوئی رقم میں ان بچوں کے لئے دوں گی جو اپنے ماں باپ کے سائے سے دور ہیں اور جن کے ماں باپ اس دنیامیں  نہیں رہے۔جن کو ایک وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا ہے۔ ان کواپنا پیٹ بھرنے کے لئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔ اگر کسی کے دل میں شفقت ہو تو کوئی ان کو کھانے کے لئے کچھ دے دیتا ہے۔ مگر اکثر لوگ ان کو یہ کہ کر بھگا دیتے ہیں کہ خود کا کوئی ٹھکانا نہیں اور ہمیں ہمارے بچوں کو کھلانے بھی نہیں دیتے ان کے حصے کا لینے کے لئے آگئے ہیں چلو یہاں سے بھاگ جاؤ۔

زرا تصور کریں کہ وہ  یتیم و مسکین بچے سارا دن کیسے بھو کے اور پیاسے رہتے ہوں گے ۔کیونکہ ہم جب تک تین وقت کا کھانا نہ کھائیں تو ہمیں سکون نہیں آتا۔ اس لئے میں اُن بچوں کے لئے کچھ ایسا کروں گی کہ ان کے رہنے اور کھانے پینے کا اچھا بندوبست ہو سکے اور وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح اپنے بارے میں کچھ سوچ سکیں اور پڑھ لکھ کر کچھ بن سکیں ۔بجائے اس کے کہ وہ کسی سے مانگ کر گزارہ کریں۔

ایڈیٹر نوٹ: یہ تحریر گورنمنٹ گرلز ہائی سکول قائد آباد سے دہم جماعت کے طالب علم سونیا فرید  نے بھیجی ہے۔ ہم نے املا، گرائمر، اور تحریری قواعد و ضوابط کی پابندی کو بہتر بنانے کے لیے کچھ ترامیم کی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button