متفرق

اندھیری رات کا سفر

تحریر: ہما نعیم

اندھیری رات، سنسان راستہ، رات کے ساڑھے گیارہ کا وقت تھا۔ دوران سفر جنگل کے درمیان اچانک ہماری کار  خرا ب ہو گئی۔ جیسے ہی گاڑی رُکی ہمیں ایسا لگا جیسے ہماری گاڑی سے کوئی چیز ٹکرا کر نیچے گِری۔میری خالہ  جو کہ گاڑی چلا رہی تھی وہ نیچے اُتری یہ چیک کرنے کے لئے کہ شاید ہماری گاڑی سے کوئی پتھر ٹکرایا ہو۔ لیکن وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ جیسے ہی وہ گاڑی میں  بیٹھنے لگی اُنہیں ایسا محسوس ہوا جیسے اُن کا پاؤں کسی نے  جکڑ رکھا ہو ۔تو خالہ و انہو پکسے انہہیںسے ہی وہ گاپٹماری گانے فوراً گاڑی کے ڈیش بورڈ سے گن نکالی ہی تھی کہ اُن کے دونوں پاؤں کسی کی گرفت میں تھے۔ پھر انہوں نے زور دار چیخ ماری اور نیچے دیکھا تو وہ چلائی اور بندوق اور چابی ہماری طرف پھینکتے ہوئے گاڑی کا دروازہ زور سے بند کردیا۔ اور کہا کہ بھاگ جاؤ  یہاں سے اور وہ خود بھی جنگل کی طرف بھاگنے لگی۔ جب وہ بھاگ رہی تھی تو ہم نے دیکھا کہ ایک آدم خور اُن کے پاؤں سے لپٹا ہوا تھا۔ اور انھیں کھانے کی کوشش کررہا تھا۔ پھر ہم نے گاڑی کو لاک کیا اور اُس کو چلانے کی کوشش کی لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ گاڑی زمین میں دھنس گئی ہو۔ ہم نے بہت کوشش کے بعد گاڑی وہاں سے نکال لی۔ ہم پوری طرح سے کانپ رہے تھے۔ پھر ہم نے گاڑی شہر کے روڑ پر روکی کیونکہ وہاں پر بہت زیادہ ٹریفک تھی۔ اسی لئے ہم آہستہ آہستہ گاڑی چلا رہے تھے مگر ہمارے ذہن میں ابھی بھی اپنی خالہ ہی تھی۔ پھر اچانک ایک زور دار جھٹکا لگا اور گاڑی رُک گئی۔ وہاں پر ریسکیو ٹیم کی بہت بڑی تعداد رُکی ہوئی تھی۔ پھر میں اپنی گاڑی سے اُتری اور کانپتے ہوئے پاؤں سے آگے بڑھی اور ایک پولیس والے سے پوچھا کیا ہوا ہے۔ تو اُس نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ آگے ایک لاش پڑی ہوئی ہے۔ یہ سن کر میں اور بھی زیادہ ڈر گئی۔ لیکن میں ہمت کرکےآگے بڑھی تو یہ دیکھ کر میرے ہوش اُڑ گئے کہ وہ لاش میری خالہ کی تھی۔ پولیس نے لاش کو اُٹھایا اور پوسٹ مارٹم کے لئے لے گئی۔اب میں فوراً گاڑی کی طرف آئی اور گھر کی طرف رُخ کیا۔تقریباً ساڑھے بارہ بجے کا ٹائم تھا۔ میں پسینے سے شرابور تھی۔ چاروں طرف اندھیرا  چھا گیا۔ اب ہم سب  صبح ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ کہ چار بجے کا وقت ہوگیا اور چاروں طرف اذان ہونے لگی۔ سب نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگے۔ ہم ابھی رو رو کر دعا مانگ ہی رہے تھےکہ باہر سے زور زور سے چیخنے کی آوازیں آنے لگی۔ اور کچھ دیر بعد ایسا سناٹا چھایا کہ کسی کے سانس لینے کی بھی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ بابا نے اللہ کا شکر ادا کیا کیونکہ سورج کی کرنیں نکل چکی تھیں۔ اور تمام آدم خور مر چکے تھے۔ اور سب نے اللہ کا شکر ادا کیا کیونکہ وہ رات گزر گئی تھی ۔ میں اس رات کو کبھی بھی نہیں بھولوں گی کیونکہ میری زندگی کی یہ سب سے بھیانک رات تھی۔

 


ایڈیٹر نوٹ: یہ تحریرگورنمنٹ گرلز ہائی سکول قائد آباد لودھراں سے دہم جماعت کی طالبہ ہما نعیم نے بھیجی ہے۔ اور اس میں صائمہ ایک فرضی نام ہے۔ ہم نے املا، گرائمر، اور تحریری قواعد و ضوابط کی پابندی کو بہتر بنانے کے لیے کچھ ترامیم کرنے بعد شائع کی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button