بلاگ

چھوٹی سی نیکی

تحریر: سمعیہ شکیل

علی اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ بہت شرارتی تھا۔ علی ہر وقت کسی نہ کسی شخص کو تنگ کرتا رہتا تھا۔ وہ اپنے سکول میں کسی کو بھی تنگ کرتا تھا اور کسی کو بھی تنگ کرنے کے بعد اس شرارت کو اپنی ایک کتاب میں لکھ لیتا تھا۔ اور وہ کتاب ایک طرح سے اس کی برائیوں کی کتاب تھی ۔ لیکن ایک دن وہ بازار جا رہا تھا تو اس نے ایک بزرگ کو دیکھا جو علی کو اپنے پاس بلا رہا تھا۔ علی نے دیکھا کہ اس کے پاؤں میں خون نکل رہا تھا۔ ویسے تو علی ہر شخص کو تنگ کرتا تھا لیکن علی نے اس شخص کو تنگ نہیں کیا ۔ وہ اس بزرگ کے پاس گیا اور دیکھا کہ بزرگ کے پاؤں میں جوتی بھی نہ تھیجس کی وجہ سے پاؤں میں کانچ چبھ گیا تھا۔ جس کی وجہ سے بزرگ کے پاؤں سے خون نکل رہا تھا۔ علی نے اس آدمی کو سڑک کے پاس فٹ پاتھ پر بیٹھنے کو کہا اور خود ایک دکان سے جا کر پانی لایا۔علی نے زخمی بزرگ سے پوچھا کہ اسے یہ چوٹ کیسے لگی اور وہ کہاں جا رہا ہے ؟ آدمی نے کہا کہ وہ دوسرے پاس والے گاؤں سے آیا ہے اور بہت دور جا رہا ہے۔ اس کا جوتا راستے میں ٹوٹ گئی تھی اور کانچ چبھ گیا جس کی وجہ سے خون نکل رہا تھا۔ علی نے ڈاکٹر کے پاس لے جا کر اس آدمی کو پٹی کروائی ۔ اور اپنے گھر جا کر اس آدمی کے لیے اپنے بابا کا جوتیالے کر آیا۔ زخمی بزرگ نے علی کو بہت ساری دعائیں دیں اور اچھا لڑکا کہہ کر چلا گیا ۔ علی اپنے گھر گیا اور اس نے اپنی شرارتوں کی کتاب کو کھولا تو اپنی تحریریں دیکھ کر اسے بہت برا محسوس ہوا اور پھر وہ سو گیا ۔ اور جب وہ صبح کو جاگا تو اس کی کتاب بالکل خالی تھی اور پھر اس نے اپنی نیکی اس کتاب میں لکھی۔علی کی ماں نے بھی جب اس کتاب کو دیکھا تو بہت خوش ہوئی


ایڈیٹر نوٹ: یہ تحریرگورنمنٹ گرلز ہائیر سیکنڈری سکول آدم واہن سے بارہویں جماعت کی طالبہ سمعیہ شکیل نے بھیجی ہے۔ ہم نے املا، گرائمر، اور تحریری قواعد و ضوابط کی پابندی کو بہتر بنانے کے لیے کچھ ترامیم کرنے بعد شائع کی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button